آئیے میں آپ کا ڈیم بنواتا ہوں

آئیے میں آپ کا ڈیم بنواتا ہوں :

جج صاحب نے فنڈ قائم کیا ہے اور  پیسا اکٹھا ہو نہیں رہا - جج صاحب آپ بڑے ہیں لیکن کبھی کبھی عقل کی بات چھوٹوں سے بھی مل جاتی ہے - جج صاحب یوں چندوں سے مسجدیں بنتی ہیں یا ڈسپنسریاں ، ڈیم نہیں بنتے - ڈیم حکومتی وسائل سے بنتے ہیں کہ اربوں کھربوں کے اخرجات ہوتے ہیں ....آئے میں آپ کو کچھ ارب اکٹھے کر دیتا ہوں ، عمل کرنا ، یعنی جمع کرنا آپ کا کام -
................
ویسے تو جس گورنر ہاوس میں صرف ایک دن کے دودھ کا بل اٹھائیس ہزار بنتا ہے اس سے جان چھڑانی ہی اچھی ہے ..لیکن گورنر کے عہدے کو ختم کرنے کے لیے لمبی چوڑی آئینی ترامیم کی ضرورت ہے - جب کہ یہ ایک آسان سا اور انتظامی فیصلہ ہو گا کہ گورنر صاحب کو ڈیفنس یا کسی اور پوش علاقے میں ایک دو ایکڑ کی کوٹھی میں منتقل کر دیا جائے اور گورنر ہاؤس کو بیچ دیا جاۓ ....کیونکہ :
لاہور کا گورنر ہاوس اکہتر ایکڑ رقبے پر واقعہ ہے - شاید کہا جا سکتا ہے کہ یہ لاہور کی قیمتی ترین جگہ ہے - اکہتر ایکڑ میں گیارہ ہزار تین سو ساٹھ مرلے ہوتے ہیں ..اگر ایک مرلے کی قیمت صرف بیس لاکھ روپے شمار کی جائے جو وہاں کی ممکنہ قیمت کا نصف بھی نہ ہو شاید تو بھی یہ قیمت بائیس ارب روپے بنتی ہے -
...........
اسی طرح کراچی کا گورنر ہاوس ہے جس کی قیمت لاہور کے گورنر ہاؤس سے کم نہ ہو گی -
اس کے بعد پشاور کا گورنر ہاؤس بھی اربوں روپے کی زمین پر موجود ہے
سو ان تین گورنر ہاوسز کو بیچ کے ہی ڈیمز کی اچھی خاصی قیمت وصول کی جا سکتی ہے
..............
اس کے بعد ہر ضلع کے ڈی سی ہاوسز ہیں جن کے رقبے آپ کی سوچ سے بھی زیادہ ہیں ، میں نے ایک بار اس حوالے سے بھی مضمون لکھا تھا ، اگر ملتا تو نقل کرتا ، آپ کی آنکھیں کھل جاتیں - یہ گھر بھی بعض جگہوں پر بیسیوں ایکڑ پر مشتمل ہیں - جب کہ ایک ڈی سی نامی افسر عموما چھے فٹ سے لمبا نہیں ہوتا ، اس کا وزن بھی سو کلو کے لگ بھگ ہوتا ہے ، سو اس شہر کی کسی بھی پوش آبادی میں اس کو ایک یا دو کنال کے گھر میں "بند " کیا جا سکتا ہے کہ "لیجئے صاحب قوم کی خدمت کیجئے ".........
پانامہ کیس میں جتنے بھی لوگوں کا نام آیا ہے سب سے ریکوری کی جاۓ.   ریلوے کی ہزاروں ایکڑ اراضی پر قبضہ مافیا کا راج ہے وہ اراضی واگزار کرانے کے بعد بیچ دی جاۓ.

ایک سب سے اہم بات کہ جب کوئی شخص کسی حکومتی عہدہ پر فائز ہوتا ہے تو اس کو ملنے والے تحائف پر سرکار کا حق ہوتا ہے نہ کہ اس شخص کا.... تو پوچھا جائے کہ پانچ ارب روپے کی ملکیت والا بحریہ ٹاؤن میں محل کس مقصد کے لیے بطور تحفہ سابقہ صدر نے قبول کیا تھا.  اگر جواب تسلی بخش نہ ملے تو اسے بحق سرکار ضبط کیا جائے.
...
اور چلتے چلتے بتاتا چلوں کہ ہمار وزیر اعظم ہاؤس قائد اعظم یونورسٹی سے کچھ زیادہ ہی رقبے میں واقع ہے -
اچھا ایک اور بات یاد آئی کہ آپ نے پچھلے دنوں موبائل فون پر ٹیکس کٹوتی ختم کی ...کہ جو ایک سو کے کارڈ پر بچیس روپے کے قریب تھی ،  اگر  بائیس کروڑ کی آبادی میں صرف دو کروڑ افراد موبائل استعمال کرنے والے تصور کیے جائیں  اور ہفتے کا ایک کارڈ  تو جناب یہی پچاس کروڑ روپے بنتا ہے ، جو  اب حکومت کی بجائے کمپنیوں کی جیب میں جا رہا ہے ...عوام کو کوئی خاص رلیف نہیں ملا ..اپ اسے واپس بحال کر کے ڈیم کے لیے مختص کر لیں
...........
اگر گزری حماقتوں کا ذکر کریں گے تو رونے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا ...جیسا کہ اورنج ٹرین ہے جس پر دو سو ارب روپے سے زیادہ لگ رہے ہیں جو ایک شہر کی صرف ایک سڑک ہے ...آپ نے نیرو کا نام سنا ہو گا ؟
جی ہاں ہمارے یہ حکمران نیرو ہی ہیں کہ روم جل رہا تھا اور یہ بانسری بجا رہے تھے -
جی ہاں! آنے والی نسلیں ہم کو گالیاں دیں گی کہ تمام کا تمام پانی پی گئے اور ہمارے لیے کچھ نہ چھوڑا - تو اس موئی اورنج ٹرین کی جگہ اس پیسے کو ڈیم بنانے میں بھی لگایا جا سکتا تھا -
جناب یہ صرف ایک حماقت ہے ، ورنہ اگر میگا سکینڈلز کو گننا شروع کریں گے تو درجنوں کالا باغ اور بھاشا ڈیم آپ کی جیب میں آ جائیں گے -
..............
سوال یہ بھی ہے کہ یہ ہمارے لیڈر ، افسر اور رہنما کیسے ان تنگ گھروں میں رہ سکیں گے تو بتاتا چلوں کہ :
بل گیٹس دنیا کا امیر ترین شخص ہے، دنیا میں صرف 18 ممالک ایسے ہیں جو دولت میں بل گیٹس سے امیر ہیں، باقی 192 ممالک اس سے کہیں غریب ہیں، لیکن یہ شخص اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتا ہے، وہ اپنے برتن خود دھوتا ہے. وہ سال میں ایک دو مرتبہ ٹائی لگاتا ہے اور اسکا دفتر مائیکروسافٹ کے کلرکوں سے بڑا نہیں-
وارن بفٹ دنیا کا دوسرا امیر ترین شخص ہے۔ اسکے پاس 50 برس پرانا اورچھوٹا گھر ہے، اسکے پاس 1980ء کی گاڑی ہے۔
برطانیہ کے وزیراعظم کے پاس دو بیڈروم کا گھر ہے۔
جرمنی کے چانسلر کا ایک بیڈ روم اور ایک چھوٹا سا ڈرائنگ روم سرکاری طور پر ملا ہے -
اسرائیل کا وزیراعظم دنیا کے سب سے چھوٹے گھر میں رہ رہا ہے -

محترم جج صاحب!  ڈیم کا چندہ بھی وہ عوام دے جس کے خون کے قطروں پر بھی ٹیکس لگتا ہے. تنخواہوں سے کٹوتی کی جاۓ گی مگر کب تک؟ اس ملک کے گلے سے کرپشن مافیا آخری قطرہ نچوڑ چکا ہے مگر اب باری ان کی ہے. اور انشاءاللہ ڈیم ضرور بنے گا مگر چندے سے نہیں بلکہ اس ملکی دولت سے جو اندرون بیرون ملک چھپائی گئی ہے.

No comments:

Post a Comment

Type Your Comment Here