ہر اک کا انداز اپنا اپنا

مرشــد نے مُــریدوں پہ نظر ڈالی اور اپنا انار کھاتے کھاتے 
ایک ہونہار مرید کی طرف بڑھا دیا۔

مــرید نے انار ادب سے پکڑا مگر وہ چاہتا تھا کہ مرشد انار سے مستفید ہوں کیونکہ وہ بہت کم ہی کوئی چیز رغبت سے کھاتے تھے، اس نے دوبارہ وہ انار اپنے مرشد کی طرف بڑھایا اور کہا :
” حضرت آپ انار ہی تو شوق سے کھاتے ہیں، آپ ہی تناول فرمائیے، ہم تو روز کچھ نہ کچھ کھاتے ہی رہتے ہیں … ”

مرشـــــــد نے وہ انار اس مرید سے لے کر دوسرے مرید کی طرف بڑھا دیا جو بڑی حسرت اور رشک کے ساتھ اس انار کی جانب دیکھ رہا تھا، انار پکڑاتے ہوئے مرشد نے بڑی دھیمی آواز میں کہا :
ہرشخص کامقدراسےمل کررہتاھے
انار کھاتے کھاتے اس میں سے ایک دانا نیچے گرا، اللہ کے رزق کی بےادبی سمجھ کر پہلے مرید نے اس دانے کو نیچے سے اٹھایا اور کھا لیا، دانے کا اندر جانا تھا کہ اس مرید کے چودہ طبق روشن ہو گئے، زمین اور آسمان کے حقائق کی گتھیاں کھلناشروع ہو گئیں، اس نے گھبرا کر سارا انار کھا جانے والے ساتھی کی طرف دیکھا اور سوچا :
” ایک دانے نے میرا یہ حشر کر دیا ھے، جس نے سارا انار کھا لیا ھے اس کا کیا حال ہوا ہو گا …؟”
مرشد جو یہ ساری صورتحال دیکھ رہا تھا، بولا :
” بیٹا! جو کچھ تھا اسی دانے میں تھا جو تو نے کھا لیا، باقی انار بس انار ھی تھا! ”
اس نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا :
” دیکھو! اگر وہ اس دانے کو حقیر نہ جانتا اور اسے اللہ کی نعمت سمجھ کر تیری طرح لپک لیتا تو اپنی مراد کو پا لیتا، انسانوں کی اپنی اپنی قسمیں ہوتی ہیں، جس طرح فصلوں کی اپنی قسمیں ہوتی ہیں، کسی کو زیادہ پانی درکار ہوتا ہے، جب کہ وہی پانی دوسری فصل کے لئے نقصان دہ ہوتا ھے، کسی کے دل و دماغ کی گتھی سلجھانے کو ایک جملہ بھی کافی ہوتا ھے جبکہ دوسرے کے لئے ایک گھنٹے کا خطاب بھی بےکار و بےاثر ہوتا ھے، کسی کے لئے زمین پر کھڑے اونٹ پر ایک نظر ڈالنا ہی اسے رب سے ملا دیتا ھے اور کوئی شٹل میں خلا ؤں   میں گھوم پھر کے آ جاتا ھے، مگر جیسا خالی جاتا ھے ویسا ہی خالی آ جاتا ھے، کسی بات کو ،کسی چیز کو حقیر مت جانو، ہو سکتا ھے جسے توں معمولی سمجھ کے  حقیر سمجھ کےاس کیطرف دیکھنا گوارا نہیں کرتاوہی تیر ے لئےکامیا بی کی سیڑھی ہو وہی تیری ہدایت کا سامان ہو-- یاد رکھو بڑے سے بڑے تالے کی چابی چھوٹی ہی ہوتی ھے
، اس کے حجم کو مت دیکھو کام پر نظر رکھو
اور یہ دانہ کھانے والے کون تھے "
حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ

No comments:

Post a Comment

Type Your Comment Here