دس شہداء کو نشان حیدر ملا مگر تصاویر 11 ہوتی ہیں اس کی وجہ بھی جانیں


*نشان-حیدر*
دس شہداء کو نشان حیدر ملا مگر تصاویر 11 ہوتی ہیں اس کی وجہ بھی جانیں
 *3 مئی 1956ء* کو *صدر پاکستان نے نمایاں شہری اور فوجی خدمات* کے اعتراف کے لئے مختلف تمغے قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان میں کہا گیا کہ ملک کا سب سے بڑا انعام فوج کا جنگی تمغہ ہوگا جس کا نام نشان حیدر ہوگا۔ 
یہ تمغہ مسلح افواج کے اس فردکو دیا جائے گا جس نے *ملک کی حفاظت اور سلامتی* کے لئے زبردست خطرات کا سامنا کرتے ہوئے بے حد بہادری اور زبردست ہمت کا مظاہرہ کیا ہو۔ اسی اعلامیے میں پاکستان کے شہریوں کے لئے بھی قومی اعزازات کے *پانچ آرڈرز* کے قیام کا اعلان بھی کیا گیا۔
جن کے نام *آرڈر آف پاکستان‘ آرڈر آف شجاعت‘ آرڈر آف امتیاز‘ آرڈر آف قائداعظم اور آرڈر آف خدمت تھے*
۔ یہ بھی اعلان کیا گیا کہ ہر آرڈر تمغوں کے چار چار سلسلوں پر مشتمل ہوگا۔ جو *نشان‘ ہلال‘ ستارہ اور تمغہ* کہلائیں گے۔
اسی اعلامیہ میں *آرڈر آف جرأت* کے قیام کا اعلان بھی کیاگیا۔ بتایا گیا کہ آرڈر آف جرأت تین تمغوں پرمشتمل ہوگا جو *ہلال جرأت‘ ستارہ جرأت اورتمغہ جرأت کہلائیں گے یہ تینوں تمغے صرف مسلح افواج کے ارکان کو دیئے جاسکیں گے*۔ 
 ہلال جرأت کا مقام فوجی تمغوں میں نشان حیدر کے بعد اور مجموعی تمغوں میں ہلال پاکستان کے بعد ہوگا۔

 *نشانِ حیدر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے* جو کہ اب تک پاک فوج کے *دس شہداء کو مل چکا ہے*۔ پاکستان کی فضائیہ کی تاریخ اور پاکستان کی بری فوج کے مطابق *نشانِ حیدر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام پر دیا جاتا ہے* کیونکہ ان کا لقب حیدر تھا اور ان کی بہادری ضرب المثل ہے۔ یہ نشان صرف ان لوگوں کو دیا جاتا ہے، جو وطن کے لئے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہو چکے ہوں۔
*نشانِ حیدر پاکستانی افواج کا عظیم ترین میڈل ہے جو برطانیہ کے سب سے بڑے فوجی اعزاز “وکٹوریہ کراس“ کے برابر اہمیت رکھتا ہے*۔

نشان حیدر كے اس *اعزاز كے ساتھ5000 ہزار روپے یا 75 ایكڑ نہری زمین بھی دی جاتی ہے*۔ اس اعزاز كے ساتھ الاؤنس ٣ نسلوں تك چلتے ہیں۔
*نشان حیدر 5 كونی ستارہ ہے جو دشمن سے چھینی گئی گن کی دھات سے بنایا جاتا ہے*۔ اس پر سفید اینمل اور كاپر، نكل دھات سے چاند ستارہ اور ڈیزائن بنا ہوتا ہے۔ *ڈیزائن كے اوپر والے حصے پر نشان حیدر كے الفاظ كندہ ہوتے ہیں*۔ اس كا ربن سبز رنگ كا ہوتا ہے اور یہ ڈیڑھ انچ چوڑا ہوتا ہے۔
میڈل کی پشت پر اس خوش بخت فوجی کے بارے میں مختصر تفصیلات درج ہوتی ہیں جسے یہ اعزاز دیا جاتا ہے۔ ان مختصر کوائف میں درج ذیل معلومات فراہم کی گئی ہوتی ہیں۔
1:۔ شہید کا نام
2:۔ آرمی نمبر
3:۔ جائے شہادت
4:۔ تاریخِ شہادت
5:۔ تاریخِ ولادت

 آج تک پاکستان میں دس افراد کو نشانِ حیدر دیا گیا ہے جن کے نام درج ذیل ہیں۔
1. *کیپٹن محمد سرور شہید*
2. *میجر طفیل محمد شہید*
3. *میجر راجہ عزیز بھٹی شہید*
4. *میجر محمد اکرم شہید*
5. *پائیلٹ آفیسر راشد منہاس شہید*
6. *میجر شبیر شریف شہید*
7. *جوان سوار محمد حسین شہید*
8. *لانس نائیک محمد محفوظ شہید*
9. *کیپٹن کرنل شیر خان شہید*
10. *حوالدار لالک جان شہید*

ایک شخصیت ان کے علاوہ اور بھی ہیں جن کو نشانِ حیدر تو نہیں ملا لیکن "ہلالِ کشمیر" ملا جسے نشانِ حیدر کے برابر درجہ دیا گیا ہے۔
11۔ نائیک سیف علی جنجوعہ شہید

ان شہیدوں میں میجر طفیل نے سب سے بڑی عمر یعنی 44 سال میں شہادت پانے کے بعد نشان حیدر حاصل کیا، باقی فوجی جنہوں نے نشان حیدر حاصل کیا ان کی عمریں 40 سال سے بھی کم تھیں جبکہ *سب سے کم عمر نشان حیدر پانے والے راشد منہاس تھے جنہوں نے اپنی تربیت میں 20 سال 6 ماہ* کی عمر میں شہادت پر نشان حیدر اپنے نام کیا۔
#اب-ان-شہداء-کے-بارے-میں-کچھ-تفصیل-پیش-خدمت-ہے۔
• 1 *کیپٹن محمد سرور شہید*
کیپٹن سرور شہید، 10 نومبر 1910ء کو موضع سنگھوری ، تحصیل گوجر خان ، ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ 1944ء میں آرمی کے انجیینر کور میں شامل ہوئے۔ 1946ء میں پنجاب رجمنٹ کی بٹالین میں کمپنی کمانڈر کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا۔ 1947ء میں ترقی کرکے کپٹن بنا دئیے گئے۔ 1948ء میں جب وہ پنجاب رجمنٹ کے سیکنڈ بٹالین میں کمپنی کمانڈر کے عہدے پر خدمات انجام دے رہے تھے ، انہیں کشمیر میں آپریشن پر مامور کیا گیا۔
یہ 27 جولائی 1948ء کا واقعہ ہے جب انہوں نے اوڑی سیکٹر میں دشمن کی اہم فوجی پوزیشن پر حملہ کیا۔ جب وہ دشمن سے صرف 30 گز کے فاصلے پر پہنچے تو دشمن نے ان پر بھاری مشین گن ، دستی بم اور مارٹر گنوں سے فائرنگ شروع کر دی۔ اس حملے میں مجاہدین کی ایک بڑی تعداد شہید اور زخمی ہوئی۔ جوں جوں مجاہدین کی تعداد میں کمی آتی گئی ان کا جوش و جذبہ بڑھتا چلا گیا۔ پھر کپٹن راجا محمد سرور نے ایک توپچی کی گن کو خود سنبھالا اور دشمن پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ کپٹن سرور گولیوں کی بارش برساتے ہوئے بہت دور تک نکل گئے۔ اب دشمن کا مورچہ صرف 20 گز کے فاصلے پر تھا ۔ اس موقع پر اچانک انکشاف ہوا کہ دشمن نے اپنے مورچوں کو خاردار تاروں سے محفوظ کر لیا ہے۔ کپٹن سرور اس غیر متوقع صورت حال سے بالکل ہراساں نہ ہوئے اور برابر دشمن پر فائرنگ کرتے رہے۔ اس دوران میں اپنے ہاتھ سے دستی بم ایسا ٹھیک نشانے پر پھینکا کہ دشمن کی ایک میڈیم مشین گن کے پرزے اڑ گئے مگر اس حملے میں ان کا دایاں بازو شدید زخمی ہوا مگر وہ مسلسل حملے کرتے رہے۔ انہوں نے ایک ایسی برین گن کا چارج لیا جس کا جوان شہید ہو چکا تھا چنانچہ اپنے زخموں کی پروا کیے بغیر چھ ساتھیوں کی مدد سے خاردار تاروں کو عبور کرکے دشمن کے مورچے پر آخری حملہ کیا ۔ دشمن نے اس اچانک حملے کے بعد اپنی توپوں کارخ کپٹن سرور کی جانب کر دیا ۔ یوں ایک گولی کپٹن سرور کے سینے میں لگی اور انہوں نے وہاں شہادت پائی۔ مجاہدین نے جب انہیں شہید ہوتے دیکھا تو انہوں نے دشمن پر ایسا بھرپور حملہ کیا کہ وہ مورچے چھوڑ کر بھاگ گئے۔
• 2 . *میجر طفیل محمد شہید*
میجر طفیل محمد شہید (1914 - 7 اگست 1958) پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ فوجی خدمات کے پیش نظر انہیں پاکستان کا اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔میجر طفیل کے نام کی مناسبت سے قصبہ روڑالہ روڈ کے نزدیک ایک گاؤں کا نام طفیل شہید رکھا گیا۔
• 3 *میجر راجہ عزیز بھٹی شہید*
میجر راجہ عزیز بھٹی شہید، پاکستان کے ایک بہادر سپاہی تھے جنہیں 1965 کی پاک بھارت جنگ میں بہادری پر فوج کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر دیا گیا۔ آپ ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے۔پاکستان بننے سے پہلے آپ پاکستان منتقل ہوئے اور ضلع گجرات کے گاؤں لادیں میں رہائش پذیر ہوئے۔ آپ نے پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کی اور 1950 میں پنجاب رجمینٹ میں شامل ہوئے۔1965 کی جنگ میں مشہور زمانہ بی آر بی نہر کے کنارے برکی میں ایک کمپنی کی کمان کر رہے تھے، نہر کے کنارے ایک مقام پر ہندوستان کی فوج قابض ہو گئی تھی، انہوں نے اپنے سپاہیوں کے ہمراہ مخالف فوج سے علاقہ واگزار کروا لیا مگر 12 ستمبر 1965 کو ہندوستانی فوج کے ٹینک کا ایک گولہ ان کو آ کر لگا جس سے ان کی شہادت ہوئی۔میجر عزیز بھٹی شہید کی جس وقت شہادت ہوئی ان کی عمر 37 سال تھی-
• 4. *میجر محمد اکرم شہید*
میجر محمد اکرم (1938 – 1971) ضلع گجرات کے ایک گاؤں ڈنگہ میں پیدا ہوۓ۔ وہ پاکستان کے اعوان خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کو 1971ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لڑی گئی ہلی کی جنگ میں بہادری کے کارنامے دکھانے پر پاکستان کا اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔
31 سال 8 ماہ کی عمر میں شہید ہونے والے میجر محمد اکرم کو مشرقی پاکستان (موجود بنگلہ دیش) میں ہی دفنایا گیا، البتہ بعد ازاں ان کے آبائی علاقے جہلم میں یاد گار تعمیر کی گئی۔

• 5. *پائلٹ آفسیر راشد منہاس*
راشد منہاس (17 فروری 1951– 20 اگست 1971) پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 13 مارچ 1971 کو پاک فضائی میں شمولیت اختیار کی، اسی سال 20 اگست کو دوران تربیت ان کے استاد (انسٹرکٹر) مطیع الرحمن نے پاکستان کے جہاز کو اغواء کرکے پندوستان لے جانے کی کوشش کی تو جہاز کے کاک پٹ میں پہلے دست بدست لڑائی ہوئی بعد ازاں راشد منہاس نے جہاز کو ہندوستان کے بارڈر سے 51 کلومیٹر دور ہی زمین سے ٹکرا دیا جس سے ان کی شہادت ہوئی۔راشد منہاس فوج کا اعلیٰ ترین اعزاز نشان حیدر پانے والے کم عمر ترین فوجی ہیں شہادت کے وقت ان کی عمر صرف 20 سال اور 6 ماہ تھی جبکہ ان کو پاکستان ائر فورس کا حصہ بنے بھی صرف 5 ماہ ہوئے تھے-
• 6 *میجر شبیر شریف شہید*
میجر شیبر شریف شہید 28 اپریل 1943 کو پنجاب کے ضلع گجرات میں ایک قصبے کنجاح میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے لاہور کے سینٹ انتھونی سکول سے او لیول کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھ رہے تھے جب انہیں پاکستان فوجی درسگاہ کاکول سے آرمی میں شمولیت کا اجازت نامہ ملا۔1971 میں جب مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں جنگ جاری تھی، تو پنجاب میں ہیڈ سلیمانکی کو ہندوستان کی فوج کے قبضے سے واگزار کروانے میں کامیابی حاصل کی اس جنگ میں ہندوستان کے 4 ٹینک تباہ، 42 فوجی ہلاک اور 28 قیدی بنائے گئے۔ملک کے بڑے رقبے کو پانی فراہم کرنے والے بند ہیڈ سلیمانکی پر حفاظت کے دوران ان کو ہندوستان کے ٹینک کا گولہ لگا جس سے 28 سال کی عمر میں ان کی شہادت ہوئی
06 دسمبر 1971 کو وہ سلیمانکی ہیڈ ورکس پر پاکستانی فوج کے لئے ان کی بے لوث خدمات کے اعتراف میں انہیں پاکستان کے اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔

• 7. *جوان سوار محمد حسین شہید*
جوان سوار محمد حسین جنجوعہ شہید 18 جون 1949 کو ضلع راولپنڈی کی تحصیل گجر خان کے ایک گاؤں ڈھوک پیر بخش (جو اب ان کے نام کی مناسبت سے ڈھوک محمد حسین جنجوعہ کے نام سے موسوم کی جا چکی ہے) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 3 ستمبر 1966 کو محض سترہ سال کی کم عمری میں پاک فوج میں بطور ڈرائیور شمولیت اختیار کی اور ڈرائیور ہونے کے باوجود عملی جنگ میں بھر پور حصہ لیا۔انہوں نے پاک بھارت جنگ میں حصہ لیا۔1971 کی جنگ میں سیالکوٹ میں ظفر وال اور شکر گڑھ کے محاذ جنگ پر گولہ بارود کی ترسیل کرتے رہے، ان کی نشاندہی پر ہی پاک آرمی نے ہندوستان کی فوج کے 16 ٹینک تباہ کیے، 10 دسمبر 1971 کو شام 4 بجے بھارتی فوج کی مشین گن سے نکلی گولیاں ان کے سینے پر لگیں اور وہ وہیں خالق حقیقی سے جا ملے ۔ ان کی اسی بہادری کے اعتراف میں پاک فوج نے انہیں اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا۔جس وقت سوار محمد حسین کی شہادت ہوئی ان کی عمر محض 22 سال اور 6 ماہ تھی۔وہ پاک فوج کے پہلے سب سے نچلے رینک کے اہلکار یعنی سپاہی تھے جن کو ان کی بہادری پر نشان حیدر دیا گیا۔
• 8 . *لانس نائیک محمد محفوظ شہید*
لانس نائیک محمد محفوظ شہید ضلع راولپنڈی کے ایک گاؤں پنڈ ملکاں (اب محفوظ آباد) میں 25 اکتوبر 1944 کو پیدا ہوئے اور انہوں نے 25 اکتوبر 1962 کو پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔1971 کی جنگ میں ان کی تعیناتی واہگہ اٹاری سرحد پر تھی، وہ لائٹ مشین گن کے آپریٹر تھے، ہندوستان کی فوج کے شیلنگ سے ان کی مشین گن تباہ ہوئی جبکہ ان کی کمپنی (فوجی داستہ) مخالف فوج کی زد میں آگیا۔شیلنگ سے لانس نائیک محمد محفوظ کی دونوں ٹانگیں زخمی ہو گئیں انہوں نے اسی زخمی حالت میں ہندوستان کے ایک بنکر (جہاں سے پاکستانی فوج کو نشانہ بنایا جا رہا تھا) میں غیر مسلح حالت میں گھس کر حملہ کیا اور ایک ہندوستانی سپاہی کو گلے سے دبوچ لیا، البتہ ایک اور ہندوستانی فوجی نے ان پر خنجر سے حملہ کرکے انہیں شہید کر دیا۔لانس نائیک محمد محفوظ کی بہادری کا اعتراف ہندوستان کے فوجیوں نے بھی کیا۔ان کی شہادت کے بعد 23 مارچ 1972 کو بہادری پر سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر انہوں سے نوازا گیا۔
• 9 . *کیپٹن کرنل شیر خان شہید*
کیپٹن کرنل شیر خان شہید (1970–1999) پاکستان کے صوبہ سرحد کے ضلع صوابی ایک گاؤں نواں کلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 7 جولائی 1999 کو بھارت کے خلاف کارگل کے معرکے میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے پاک فوج کا اعلی ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدر کا اعزاز حاصل کیا۔
• 10 . *حوالدار لالک جان شہید*
حوالدار لالک جان شہید (1967–1999) پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان میں سلسلہ کوہ ہندوکش کی وادی یاسین میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 7 جولائی 1999 کو بھارت کے خلاف کارگل کے معرکے میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے پاک فوج کا اعلی ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدر کا اعزاز حاصل کیا۔ آپ کی مادری زبان کھوار تھی لیکن آپ کو بروشسکی اور شینا زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا-
• 11 . *نائیک سیف علی جنجوعہ شہید*
وطن کے لیے مر مٹنے والوں میں ایک نام نائیک سیف علی جنجوعہ شہید کا بھی ہے۔ سیف علی جنجوعہ مورخہ 25 اپر یل 1922ءکو موضع کھنڈہار تحصیل مینڈھر (کشمیر) میں پیدا ہو ئے کشمیر کی جنگ آزادی کے بعداب یہ علاقہ آزاد کشمیر کی تحصیل نکیال کی حدود میں آتا ہے اور کنٹرول لائن کے قریب واقع ہے اور موضع کھنڈہار، تحصیل فتح پور تھکیالہ (نکیال) ضلع کوٹلی آزاد کشمیر میں واقع ہے۔ 1948 کی جنگ میں سیف علی جنجوعہ نے جرات اور بہادر کی نئی داستانیں رقم کیں ۔ اور26 اکتوبر 1948ء وطن کی خاطر لڑتے ہوے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ انہیں اس جرات اور بہادری کے صلہ میں آزادجموں و کشمیر ڈیفنس کونسل نے آزاد کشمیر کے سب سے بڑے فوجی اعزاز”ہلالِ کشمیر“ سے نوازاجسے حکومت پاکستان نے 30نومبر 1995ءکو نشانِ حیدر کے برابر قرار دیا سیف علی جنجوعہ شہیدؒ آزاد کشمیر کا سب سے بڑا فوجی اعزاز حاصل کرنے والے پہلے شہید ہیں۔
تاج محمد خان اعوان کے والد جناب ریٹائرڈ صوبیدار عطامحمد ( ستارہ جرأت مرحوم ) بھی جناب میجر شبیرشریف شہید نشان حیدر کے شانہ بشانہ سلیمانکی سیکٹر میں ان کی کمپنی میں موجود تھے اور معمولی زخمی بھی ہوئے تھے انھیں بھی بے مثال جراءت اور بہادری کے صلے میں آرمی کے تیسرے بڑے اعزاز ستارہ جرأت سے نوازا گیا


No comments:

Post a Comment

Type Your Comment Here